مساوات
مختلف خاندان اپنی زندگی اور اپنے کام کاج کا انتظام کیسے کرتے ہیں یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔ اس کے باوجود ہمیں قوانین اور حقوق میں برابری اورہمسری کی سوچ نظرآتی ہے۔ ناروے میں رہنے والے تمام افراد کو ان قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے ۔ اس سے مراد ہے مثلاً مساوات کا قانون ، عائلی قانون اور وراثت کا قانون۔
نارویجن معاشرے کی اہم ترین اقدار میں سے ایک انسانوں میں مساوات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ انسان بلا لحاظ ِ جنس/صنف، عمر،سماجی حیثیت، ثقافتی پسِ منظر، نسلی تعلّق یا جنسی رْحجان ، ایک جیسا مقام رکھتے ہیں۔ معاشرہ اپنی توقعات کے مطابق سب کو ایک جیسے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسکی مثالیں مختلف جسمانی معذوریوں والے طلباء کے لئے سکول کی سہولت اور تارکینِ وطن کے لئے نوشک زبان کی تعلیم، ایک جیسے کام کے لئے ایک جیسی تنخواہ کااصول وغیرہ ہیں۔۔
گزشتہ دس سالوں میں صنفی برابری کے حوالے سے بہت پیش رفت ہوئی ہے۔ ہم نے عورتوں اور مردوں کے کام اور مقام کے بارے میں دونوں عوامی اورخاندانی اور گھریلوسطح پر سوچ میں تبدیلی محسوس کی ہے۔
1970ء کی دہائی میں معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ اور تعلیم و روزگار کی زندگی میں ان کے مواقع پر عمومی توجہ دی گئی۔ عورتوں کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہؤا ہے اور آج روزگارمیں عورتوں کی تعداد تقریبا ً مردوں کے برابر ہے۔اس کے باوجود اب بھی عورتوں اور مردوں کے مخصوص پیشوں کی تقسیم ہے اور مردوں سے کہیں زیادہ عورتیں جزوقتی کام کرتی ہیں۔ آج تقریباً عورتوں اور مردوں کی ایک جیسی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے لیکن اکثریت اب بھی زیادہ تر روایتی پیشوں کا انتخاب ہی کرتی ہے۔ عورتوں کی اکثریت عموماً نگہداشت اور تعلیم جب کہ مرد تکنیکی اور سائنسی شعبوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر چہ عورتیں کام کرنے والوں کی تعداد کا تقریباً نصف حصہ ہیں پھر بھی روزگار کی جگہوں پرتین میں سے دو مرد رہنما ہیں۔
اکثر خاندانوں میں آج کل خاص کر جوان خاندانوں میں عموماً گھر کے کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کو بانٹا جاتا ہے پھر بھی ابھی تک عورتیں گھر کے کام کاج میں مردوں کی نسبت زیادہ وقت استعمال کرتی ہیں۔