قرون وسطی' اور یونین کا زمانہ
قرون وسطی' اور یونین کا زمانہ
ناروے میں عیسائیت کی آمد
ناروے میں آمد سے بہت پہلے ہی عیسائیت جنوبی یورپ میں عام مذہب بن چکی تھی۔ مگر جب سنہ 1030 میں Stiklestad کی لڑائی میں Olav Haraldsson مارا گیا تو Olavکے بیٹے نے چرچ کی مدد سے اپنے باپ کو سینٹ کا درجہ دلوایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے بااثر زمیندار اور سردار عیسائی ہوتے گئے۔ بااثر طبقے کے مذہب بدلنے کے بعد عوام میں بھی مذہب بدلنے والوں میں اضافہ ہوتا گيا۔ چرچ کو جلد ہی بہت طاقت حاصل ہو گئی۔ لوگ چرچ کو ٹیکس ادا کرنے کے پابند تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنی زمین بھی چرچ کو دی۔ عام لوگوں کی زندگی میں مذہب نے بہت اہمیت حاصل کر لی۔
طاعون کی وبا
اموات اور بیماریوں کے بہت عام ہونے کے باوجود سن عیسوی 1000 اور 1300 کے درمیان ناروے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے بڑھ کر تقریباً چار لاکھ ہو گئی۔ بچوں میں سے تقریباً نصف ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے فوت ہو جاتے تھے اور بہت سی عورتیں بچے کو جنم دیتے ہوئے مر جاتی تھیں۔
چودہویں صدی کے وسط میں ایک عالمگیر وبا نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس وبا کو بلیک ڈیتھ (طاعون) کا نام دیا گیا کیونکہ اس بیماری کے انفیکشن میں مبتلا ہونے والوں کے جسم پر بڑے بڑے نیلاہٹ والے کالے پھوڑے بن جاتے تھے۔ انفیکشن میں مبتلا ہونے والوں میں سے اکثر چند دنوں میں ہی ہلاک ہو جاتے تھے۔ اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر اس وبا میں ساڑھے سات کروڑ سے لے کر 20 کروڑ تک انسان ہلاک ہوئے۔ یورپ کی تقریباً آدھی آبادی ہلاک ہو گئی۔ ناروے کی آبادی کا ایک تہائی حصہ اس بیماری سے ہلاک ہوا۔
طاقت چرچ، بادشاہ اور اشرافیہ کے ہاتھ آ گئی
قرون وسطی' میں زیادہ تر لوگ کسان تھے۔ وائیکنگز کے زمانے میں اکثر کسان اپنے کھیتوں اور زمین کے مالک خود تھے لیکن اب زیادہ تر کسانوں کو چرچ، بادشاہ اور اشرافیہ کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ جو لوگ ٹیکس ادا نہ کر پاتے، انہیں اپنی زمین سے محروم ہونا پڑتا۔ اس طرح چرچ، بادشاہ اور اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتے گئے جبکہ عوام غریب ہوتے گئے۔
ناروے کے اولّین شہروں کی بنیاد اسی زمانے میں پڑی۔ سب سے بڑے شہر برگن (Bjørgvin)، تھروندہائیم (Nidaros)، اوسلو، ستاوانگر اور Tønsberg تھے۔
یونین
چودہویں صدی کے دوران ناروے پر ڈنمارک کا اثرورسوخ بڑھتا گیا اور 1397 سے ناروے ڈنمارک اور سویڈن کے ساتھ یونین میں شامل ہو گیا۔ یونین کا بادشاہ مشترک تھا۔ آگے چل کر سویڈن یونین سے الگ ہو گیا لیکن ڈنمارک اور ناروے کی یونین سنہ 1814 تک برقرار رہی۔ اس یونین پر ڈنمارک کی حکومت تھی۔ کوپن ہیگن اس یونین کا تہذیبی مرکز تھا اور ناروے کے لوگ ڈینش زبان پڑھتے اور لکھتے تھے۔ ناروے کے کسان کوپن ہیگن میں بادشاہ کو ٹیکس ادا کرتے تھے اور ناروے کے لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوپن ہیگن جاتے تھے۔
پروٹیسٹنٹ ازم
سنہ 1517 میں مذہب کی مخالفت میں ایک تحریک اٹھی۔ جرمن راہب مارٹن لوتھر نے کیتھولک چرچ کی طاقت کے خلاف احتجاج کیا۔ مارٹن لوتھر کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہیں پروٹیسٹنٹس یعنی احتجاجی کہا گیا۔ شمالی یورپ کے کئی بادشاہوں نے مارٹن لوتھر کی حمایت کی۔ ڈینش بادشاہ نے پروٹیسٹنٹ ازم اختیار کر لیا۔ 2012 میں ناروے میں سٹیٹ چرچ کے خاتمے تک پروٹیسٹنٹ ازم ہی ناروے کا سرکاری مذہب رہا۔
آپس میں بات کریں
- اس زمانے میں آپ کے وطن کے تاریخی حالات کیا تھے؟
- کیا آپ کے وطن میں طاعون کی وبا آئی تھی؟
- کیا آپ تاریخ کے اس دور اور ہمارے زمانے میں کچھ مشترک باتیں دیکھتے ہیں؟
- مذہب کو لوگوں کی زندگی میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ چرچ کو بہت طاقت حاصل تھی۔ آپ کے خیال میں اس سے لوگوں پر کیا اثرات پڑے؟ آج اس سلسلے میں کیا صورتحال ہے؟
- آپ کے خیال میں ڈنمارک کے ساتھ یونین میں ہونے کی وجہ سے ناروے کے لوگوں اور نارویجن معاشرے کے ارتقاء پر کیا اثر پڑا؟
درست جواب چنیں
طاعون کی وبا میں ناروے کی آبادی کا کتنا بڑا حصہ ہلاک ہوا؟
درست جواب چنیں
ناروے کس سال میں سویڈن اور ڈنمارک کے ساتھ یونین میں شامل ہوا؟
درست جواب چنیں
سولہویں صدی کے آغاز میں جرمن راہب مارٹن لوتھر نے کس کے خلاف احتجاج کیا؟
درست یا غلط ہونے کی نشاندہی کریں
یہ بیانات پڑھیں۔ کیا درست ہے؟ کیا غلط ہے؟
درست یا غلط ہونے کی نشاندہی کریں
یہ بیانات پڑھیں۔ کیا درست ہے؟ کیا غلط ہے؟